لاہور (سچ نیوز) سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے معاون خصوصی برائے اقتصادی امور اور امریکی سفیر علی جہانگیر کی جانب سے قومی خزانے کو کھربوں روپے کا ’ٹیکہ‘ لگانے کی کوشش کا انکشاف ہوا ہے تاہم وزارت خزانہ اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کی کوششوں کے باعث یہ کوشش ناکام ہو گئی۔
نجی ٹی وی 92 نیوز کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر علی اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے معاون خصوصی برائے اقتصادی امور علی جہانگیر صدیقی کا ایک اور کارنامہ سامنے آیا ہے۔ ان کے گروپ جے ایس کیخلاف نیب سمیت ایس ای سی پی میں مجموعی طور پر 128 ارب روپے مالیت کے 14 کرپشنز سکینڈلز کی تحقیقات ہو رہی ہیں جو گزشتہ چار سے پانچ سال سے التواءکا شکار ہیں تاہم اس کے باوجود انہیں وزارت قانون کیساتھ مل کر ایک انتہائی اہم اور پاکستان کیلئے انتہائی خطرناک بل تیار کروایا گیا جس کا نام ”سوورن ویلتھ فنڈ آف پاکستان“ رکھا گیا۔
رپورٹ کے مطابق منصوبہ یہ بنایا گیا کہ وفاقی کابینہ سے منظوری حاصل کر کے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ایک ایسا قانون منظور کروایا جائے جس کے تحت ایک انتہائی بااختیار بورڈ تشکیل دے کر کے پاس موجود جمع پونجی اس بورڈ کے حوالے کر دی جائے جبکہ اس کے علاوہ پانچ ارب ڈالر مزید اس بورڈ کو دئیے جائیں۔ اس رقم کے حصول کیلئے پاکستان کے اثاثوں کو گروی رکوا کر حکومت پاکستان کی سوورن گارنٹی فراہم کر کے چین سمیت عالمی مالیاتی اداروں اور مختلف ملکوں سے پانچ ارب ڈالر قرض حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔
یہ بورڈ پاکستان کی معاشی حالت کو بہتر بنانے اور کمزور معیشت کو توانا بنانے کیلئے قرضوں سے حاصل کی گئی رقم کو رئیل سٹیٹ اور کیپٹل مارکیٹ میں انویسٹ کرے گا جبکہ اس مارکیٹ میں پاکستان کے مختلف شعبے بھی تھے اور عالمی سطح کی سٹاک مارکیٹ بھی تھی۔ یہ منصوبہ اور بل بنوانے والوں کی اپنی مختلف کمپنیاں دنیا کے مختلف کونوں میں موجود ہیں اور پہلے ہی رئیل سٹیٹ اور کیپٹل مارکیٹ میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں جبکہ ان کمپنیوں کیخلاف سکینڈلز پہلے ہی موجود ہیں کہ انہوں نے جہاں بھی سرکاری رقم انویسٹ کی یا سرکاری کمپنی کے شیئرز کسی اور کمپنی کو فروخت کئے تو وہاں اربوں روپے کا نقصان ہی پہنچا، ان کمپنیوں کے ذریعے قرض سے حاصل کیا گیا پانچ ارب ڈالر انویسٹ کیا جاتا اور ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی قوم کی رقم ڈوب جاتی جبکہ یہ بورڈ اس قدر بااختیار ہوتا کہ کوئی اس سے کچھ بھی نہ پوچھ سکتا۔
یہ منصوبہ مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت کے آخری چار سے پانچ مہینوں کے درمیان بنایا گیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بل کیلئے صدارتی آرڈیننس جاری ہونے سے پہلے وفاقی کابینہ کی منظوری ضروری تھی جس کا حل یہ پیش کیا گیا کہ بل وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیش کرنے کے بجائے سرکولیشن کے ذریعے سمری وفاقی کابینہ کے ممبران کو بھجوائی جاتی اور دستخط کروا کر وفاقی کابینہ کی منظوری حاصل کر کے صدارتی آرڈیننس جاری کروایا جائے۔
یہ منصوبہ اس وقت ناکام ہو گیا جب وزارت خزانہ کے کچھ لوگوں نے اسے بغور دیکھا اور اس سارے معاملے کو سمجھنے کے بعد یہ کہا کہ غیر ملکی قرضوں کے حوالے سے پاکستان پہلے ہی بدترین صورتحال سے دوچار ہے اور یہ جو بل تیار کروایا جا رہا ہے پاکستان اس کا ہرگز متحمل نہیں ہو سکتا جبکہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی اس کی دوٹوک مخالفت کی اور کہا کہ اگر یہ پیسے مارکیٹ میں ڈوب گئے تو پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔
۔۔۔ویڈیو دیکھیں۔۔۔