ہندوستان کے مختلف علاقوں اور جنگلوں اور مزاج، رنگ روپ اور قدوقامت کے اعتبار سے بوربچے الگ الگ ہوتے ہیں۔ان کے جسم دھاریاں اور گل کہیں قریب کہیں دور ہوتے ہیں۔کہیں جسم کا رنگ زردی مائل کہیں سرخی مائل ہوتا ہے۔اسی طرح کمر کی سیاہ پٹی بعض مقامات پر گہری سیاہ ہوتی ہے کہیں بھوری۔بوربچے کی دم شیر کی دم سے نسبتاً بڑی ہوتی ہے۔ایک انگریز شکاری مسٹر برینڈر نے دم کی لمبائی اٹھائیس انچ سے اڑتیس انچ تک اور دم کی ہڈیاں بائیس سے اٹھائیس تک بیان کی ہیں۔وزن ساٹھ پونڈ سے ایک سو تیس پونڈ تک ہوتا ہے۔جسم کی اندرونی ساخت کے اعتبار سے شیر اور بوربچے میں کوئی فرق نہیں مگر چھوٹے بوربچے اور شیر کی عادتوں میں بہت مشہور اور بین فرق یہ ہے کہ شیر بالعموم درخت پر نہیں چڑھ سکتا جبکہ بعض بوربچے درختوں ہی پر ڈیرہ جمائے رکھتے ہیں۔اپنے شکار کو درخت پر چھپا کر رکھنے میں ہر جنگلی بوربچہ ماہر ہوتا ہے۔چاند در کا مشہور بوربچہ جسے میں نے دو سال کی تلاش کے بعد ہلاک کیا، درخت پر سے کود کر بھاگتا ہوا مارا گیا۔اس موذی کو نوزائیدہ انسانی بچے کھانے کا چسکا پڑگیا تھا اور دو سال کے عرصے میں اس نے ایک سوچھتیس انسانی بچوں کو اپنا ترنوالہ بنایا۔ آدھی رات کے وقت چپکے سے کسی گھر میں گھس جاتا اور آناً فاناً بچے کو جبڑے میں دبا کر بھاگ نکلتا۔ لاش لے کر سیدھا درخت پر چڑھتا اور وہیں کھانا شروع کر دیتا۔ لاش کا بقیہ حصہ کسی اور وقت کے لیے برگد کے بڑے اور گھنے درخت کی شاخوں میں چھپا دیتا۔ایک مرتبہ نوزائیدہ بچے کو حسب عادت ماں کے پہلو سے اٹھا کر لے گیا اور اس کی آدھ کھائی لاش گاؤں کے قریب جنگل میں برگد کے پیڑ کی گھنی شاخوں میں چھپا دی۔ میں صبح اس کی تلاش میں نکلا تو لاش پر اتفاقیہ نیچے سے نظر پڑ گئی۔گوشت کا رنگ دیکھ کر گمان ہوا کہ بوربچہ تھوڑی دیر پہلے اسے کھارہا تھا، کیونکہ گوشت تازہ نچا ہوا معلوم ہوتا تھا اور ہوا کے اثر سے اس میں جو سیاہی پیدا ہو جاتی ہے،وہ نہ تھی، اس لیے میں اس نتیجے پر پہنچا کہ بوربچہ بھی درخت ہی پر ہو گا۔ اس خونخوار آدم دشمن درندے کے ملنے کی امید سے مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ میرا دل کانپنے لگا۔ مسٹر وکفیلڈڈائریکٹر جنرل کے متواتر حکام آرہے تھے کہ اس بلا کو جلد از جلد گاؤں والوں کے سر سے دور کیا جائے۔میں نے وقت ضائع کیے بغیر پانچ سات آدمی درخت کے گرد پندرہ پندرہ گز کے فاصلے پرکھڑے کیے اور خود رائفل لے کر درخت کے نیچے جا پہنچا۔دو چار آدمیوں سے کہا کہ درخت پر پتھر پھینکو۔درخت برگد کا نہایت گنجان اور ٹیڑھا تھا۔ پتھر پھینکنے سے بوربچہ کو دانہ نظر آیا۔صرف ایک مرتبہ اس نے فوں فوں کی ہلکی سی آواز نکالی۔اس سے پتا چل گیا کہ ظالم درخت پر موجود ہے۔میں نے اس دوران میں گاؤں کے دو اور بندوق چلانے والے شکاریوں کو طلب کرکے درخت کے گرد کھڑا کر دیا اور انہیں اجازت دے دی کہ جونہی درخت کے اوپر بوربچہ دکھائی دے،فائر کر دیں۔اگرنیچے کود کر بھاگے،تب بھی فائر کرنے کا موقع نہ کھوئیں۔بقیہ آدمیوں سے کہا کہ اب پتھر پھینکو مگر پھر بھی کامیابی نہ ہوئی۔مجبور ہو کر میں نے دو چار گاؤں والوں کو حکم دیا کہ تم اپنی بندوقوں میں بہت سے چھرے اور بارود بھر کر درخت پر ایک ساتھ فائر کرو۔شاید کوئی چھرہ اس کے لگ جائے اور یہ موذی کود پڑے۔میں نے اپنا گھوڑا بھی منگوا لیا کہ اگر یہ بھاگے تو اس کا تعاقب کروں گا۔دونوں شکاریوں نے دوفائر کیے مگر وہ نہ اترا نہ کہیں جگہ بدلتا دکھائی دیا۔ دس بارہ منٹ تک پتھر پھینکنے اور فائر کرنے کا عمل جاری رہا۔ لیکن بدبخت نظر نہ آیا۔ اس عرصے میں قریب کے گاؤں والے بھی پہنچ گئے اور تقریباً دو ڈھائی سو آدمیوں کا مجمع ہو گیا۔ ہر شخص اس کے مارے جانے کا دل و جان سے خواہاں اور کوشاں تھا اور میری محنت کے پھل لانے کی دعا کررہا تھا۔ جب زیادہ دیر ہوئی تو شک ہونے لگا کہ درندہ درخت پر نہیں ہے اور وہ فوں فوں کی آواز کسی اور جانور کی تھی یا غلط شبیہ ہوا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ بوربچہ درخت ہی پر ہے۔میں اس کی تلاش میں درخت کے گرد، اوپر کی طرف دیکھتا ہوا چکر لگا رہا تھا مگر پتوں کی کثرت اور گنجان الجھی ہوئی شاخوں کی وجہ سے بعض جگہیں ایسی تھیں، جہاں بوربچے کا چھپ کر بیٹھ جاتا اور نظر نہ آنا ممکن بلکہ آسان تھا۔گاؤں والوں نے درخت کو اس طرح گھیر لیا کہ بوربچے کے لیے کہیں نکلنے کا موقع ہی نہ تھا۔ اگر اس وقت وہ کود پڑتا تو یقیناً دو چار کو زخمی کرنے پر مجبور ہوتا یا کسی من چلے کی کلہاڑی سے مارا جاتا۔ ان سب گاؤں والوں کو میں نے سمجھا بجھا کر دو جانب کھڑا کیا اور دو طرف سے میدان خالی چھوڑ دیا تاکہ درندہ اتر کر بھاگ جانے کا موقع دیکھ کر کود پڑے۔ ان تمام انتظامات اور کوششوں کے باوجود بھی اس عیار نے جنبش نہ کی۔ تقریباً دو گھنٹے تک پریشان ہونے کے بعد مجھے خیال گزرا کہ چند آدمیوں کو درخت پر چڑھانا چاہیے۔درخت پر بوربچے نے اگر کسی پر حملہ بھی کیا تو کیا کرے گا؟پنجہ ہی بڑھائے گا یا چیخے گا، غرائے گا۔ چڑھنے والا اگر سنبھل کر کھڑا ہو جائے یا چھوٹی موٹی شاخ پر جم کر بیٹھ جائے تو کلہاڑی سے بوربچے کی اچھی خاطر تواضع کر سکتا ہے۔یہ سوچ کر میں نے چند مضبوط آدمیوں کو بلایا اور ترکیب سمجھائی۔ سب تو نہیں مگر چار پانچ اس پر راضی ہو گئے اور کہا کہ ایک دو بندوقچی بھی ہمارے ساتھ درخت پر چڑھا دیجیے۔ اگر بوربچہ نظر آجائے تو فائر کر دیں۔ میں نے اجازت دے دی اور خوب سمجھا دیا کہ دیکھو، ہر گز ہر گز نیچے کی طرف فائر نہ کرنا۔ یہاں آدمی کھڑے ہیں یہ زخمی ہو جائیں گے۔
(جاری ہے )