گیارہ برس کا ہوا تو میرے دائرے میں مزید وسعت پیدا ہو گئی اور میں نے ذرا اونچی اور خطرناک مہموں کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔بعض لوگوں سے شیروں اور چیتوں کی ڈراؤنی داستانیں بھی سنیں۔ان داستانوں نے میرے شوق کو مہمیز لگائی اور طبیعت جنگل میں جانے اور درندوں سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے مضطرب رہنے لگی، مگر ا فسوس کہ گجرات کے آس پاس اس زمانے میں شیر تھے نہ چیتے۔ ہاں دریائے چناب میں مچھلیاں بکثرت تھیں اور کبھی کبھار کوئی بڑا سا مگر مچھ بھی سیلاب کے زمانے میں آجاتا۔
دریائے چناب ہمارے مکان سے کوئی سات میل کے فاصلے پر تھا۔ سکول جانے کی بجائے میں دریا کا رخ کر تا۔ خوب نہاتا اور مچھلیاں پکڑتا۔پھر میں نے سانپ پکڑنے شروع کیے۔اس مشغلے میں میرا بڑا جی لگا۔ شاید اس لیے کہ یہ جان جوکھوں کا کام تھا۔ چناب کے دونوں کناروں کا جنگل میں نے اچھی طرح چھان مارا۔ان دنوں ایک ایک دن میں سولہ سولہ میل علاقے کے اندر آسانی سے گھوم لیا کرتا تھا۔میری اس آوارہ خیالی اور آوارہ گردی سے گھر والے نالاں تھے۔انہوں نے مجھے راہ راست پر لانے کی بہتیری کوشش کی،مگر مجھ پر شکار کا نشہ روز بروز چڑھتا ہی گیا۔ اس زمانے میں بڑے بھائی امیر مرتضیٰ صاحب مدھیہ پردیش میں ٹھیکے داری کا کام کرتے تھے،چنانچہ طے پایا کہ مجھے ان کے پاس روانہ کر دیا جائے اور وہ مجھے درست کریں۔تیرہ برس کی عمر تھی کہ میں اپنے بڑے بھائی کی خدمت میں پہنچا جو ان دنوں ریاست بھوپال میں ایلی پان کے مقام پر ٹھہرے ہوئے تھے۔بڑے بھائی نے مجھ سے سخت مشقت لی۔ ان کی نیت یہ تھی کہ میں اس قدر مشقت سے بہت جلد پناہ مانگ کر واپس گجرات جانے کی خواہش کا اظہار کروں گا اور اس وعدے پر مجھے بھیج دیا جائے گا کہ میں دوبارہ پڑھنے لکھنے میں دھیان دوں،لیکن الٹی ہو گئیں،سب تدبیریں،کچھ بھی نہ دوا نے کام کیا۔ اندھیا چل کے گھنے اور خطرناک جنگل دیکھ کر طبیعت اور ہری ہو گئی۔اور شکار کے جنون میں ناگفتہ بہ اضافہ ہو گیا۔وہ دن اور آج کا دن میں ان جنگلوں سے باہر نہیں نکل سکا، جب کہ دنیا میں ایک عظیم ا نقلاب برپا ہو چکا، برصغیر دوحصوں میں تقسیم ہو گیا،لاکھوں مسلمان ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان چلے گئے۔ مگر میں اب بھی انہی جنگلوں میں ہوں اور بدستور ہندوستان کا شہری۔
میری عمر سولہ برس کی تھی کہ میں نے بارہ بور کی بندوق سے پہلا شیر شکار کیا اور اسی عمر میں پہلے آدم خور چیتے کو ٹھکانے لگایا جو نہ جانے کتنے انسانوں کو ہڑپ کر چکا تھا۔ انیس برس کا ہوا تو میرے والد اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔اس وقت تک میں فارسٹ کنٹریکٹر کی حیثیت سے اپنا بوجھ خود اپنے کندھوں پر اٹھا چکا تھا اور بڑے بھائی کا مرہون مت نہیں رہا تھا۔ میرا ہیڈ کوارٹر قصبہ پدھر میں تھا اور آہستہ آہستہ میرے کاروبارکی شاخیں بیتول مدھیہ پردیش کے تمام اضلاع میں پھیل گئیں۔تاہم یہ کاروبار ثانوی حیثیت رکھتا تھا۔ میری اولین دلچسپی شکار ہی سے رہی جس کا نتیجہ یہ نکلا کے میرے ملازموں نے جی بھر کر مجھے لوٹا اور کئی مرتبہ تو ایسا بھی ہوا کہ پھوٹی کوڑی میری جیب میں نہ رہی، یہاں تک کہ مجھے مزدوری کرنی پڑی۔
اسی دوران میں میری شادی ہو گئی تھی اور میں دو بچوں کا باپ بن چکا تھا۔ چند سال کی محنت کے بعد میں نے دوبارہ اپنا کام جمالیا تھا۔1939ء میں جب دوسری جنگ عظیم چھڑی تو افسروں نے ازراہ کرم مجھے ریکروٹنگ افسر بنا دیا اور یوں میرا ہیڈ کوارٹر پدھر سے بیتول میں منتقل ہو گیا۔1947ء تک کئی دور اچھے اور برے مجھ پر گزرے اور آخر میں ایسا ہوا کہ مجھے ایک ایک کرکے اپنے دفتر کی تمام برانچیں بند کرنا پڑیں۔پھر میں نے ناگ پور ہی میں آل ون کوپرلیمٹڈ میں بحثیت ایجنٹ ملازمت کرلی۔یہ فرم بڑے بڑے آدمیوں کے لیے معقول معاوضے پر جنگلوں میں شکار کا انتظام بھی کرتی ہے۔کچھ عرصے بعد میں نے ’’ٹائیگر ٹریل‘‘کے نام سے اپنی ایک فرم قائم کرلی جو غیر ملکی شکاریوں کی نہ صرف رہنمائی کرتی بلکہ جنگل میں ان کے لیے بڑے شکار کا بندوبست بھی کرتی ہے۔
یہ ہے میری مختصر داستان حیات۔۔۔آئیے اب ماضی کے اوراق پلٹیں اور۔۔۔جنگل کی طرف چلیں جہاں نت نئی اور نہایت ہولناک مہمیں ہمایر منتظر ہیں۔جنگل کی یہ وہ دنیا ہے جہاں باہر کا قانون نافذ نہیں ہے۔یہاں انسان کا حکم چلتا ہے یا درندے کا۔۔۔درمیان کی کوئی راہ نہیں ہے۔کبھی انسان کا بس چلتا ہے تو وہ درندے کو نابود کر دیتا ہے اور کبھی درندے کا نصبہ یاورہوتا ہے،تو نہ صرف اپنی جان بچا لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے بلکہ شکاری کی تکا بوٹی بھی کر ڈالتا ہے۔چھوٹے چھوٹے قصبوں اور دیہات کے معصوم لوگ جن کے پاس جدید ہتھیار نہیں ہوتے انہیں درندوں کے رحم و کرم پر عمریں گزار دیتے ہیں اور صحیح معنوں میں عذاب ان بے گناہوں پر اس وقت نازل ہوتا ہے،جب کوئی شیر یا چیتا کسی اناڑی شکاری کی حماقت سے مردم خور ہو جاتا ہے۔مردم خور بننے کے بعد درندے کی چالاکی، مکاری، عیاری اور خونخواری اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے۔وہ عام شکاری کے قابو میں نہیں آتا اور لگاتار وارداتیں کرتا چلا جاتا ہے۔
ایسی کہانیاں عام ہیں کہ شیر یا چیتے نے انسانی لہو اور گوشت کا ذائقہ چکھنے کے بعد بستیوں کی بستیاں ویران کر ڈالیں۔سو سو دو دو سو انسانوں کو ہڑپ کر جانا معمولی بات ہے۔۔۔اور اگرایسے درندے کو ختم نہ کیا جائے توہ اتنا دلیر ہو جاتا ہے کہ دن دیہاڑے مکانوں میں گھس کر عورت یا بچے کو اٹھا لے جانے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا۔ درندہ ایک بار مردم خور بننے کے بعد جنگل کے کسی اور جانور کو شکار کرکے اس کے گوشت سے پیٹ نہیں بھرتا، بلکہ آدمی ہی کو تلاش کرتا ہے،بہرحال یہ طے شدہ بات ہے کہ درندے کو مردم خور بنانے میں بڑا ہاتھ شکاری کا ہوتا ہے۔وہ اسے زخمی کر ڈالتا ہے اور زخمی شیر یا چیتا پھرتیلے پن سے محروم ہو کر جب جنگلی جانوروں کو پکڑنے کے قابل نہیں رہتا اوربھوکا مرنے لگتا ہے تب وہ انسان پر حملہ کرتا ہے اور یہ کام درندے کے لیے بہت آسان ہوتا ہے۔یوں فطری طور پر شیر نہایت شریف النفس اور بہادر جانور ہے۔خواہ مخواہ انسانوں سے الجھنا پسند نہیں کرتا اور یہ تو میرا بار ہا کا تجربہ ہے کہ جنگل میں اگر شیر سے آمنا سامنا ہو گیا تو وہ شرافت سے راستہ بدل کر دوسری طرف چلا گیا۔
1918ء میں ضلع ہوشنگ آباد کے ایک گاؤں میں مجھے کچھ عرصہ رہنے کا اتفاق ہوا۔۔۔گاؤں جنگل کے کنارے آباد تھا، بلکہ یوں کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ اس کے چاروں طرف جنگل ہی جنگل تھا اور جنگل میں ان گنت درندے بھرے ہوئے تھے۔ درندوں کے علاوہ یہاں سور اور وحشی کتے بھی کثرت سے تھے اور روز بروز ان کی تعداد بڑھتی ہی جاتی تھی۔ ان دنوں میرے بھائی امیر مرتضیٰ صاحب بھی یہیں تھے اور سیٹھ کرم الٰہی کے مکان پر قیام تھا۔ سیٹھ کرم الٰہی نہایت مہمان نواز اور نفیس آدمی تھے، انہیں خود بھی جنگل کی زندگی سے گہرا لگاؤ تھا۔ اندپورا کے جنگل میں موروں اور جنگلی مرغوں کی بھی بہتات تھی۔ میں نے دیکھا کہ گاؤں کے لوگ موروں اور جنگلی مرغوں کوپکڑنے کے لیے پھندے لگاتے ہیں،اور روزانہ دس دس بیس بیس مور اور مرغ پکڑ لیتے ہیں۔یہ جانور بازار میں مناسب قیمت پر فوراً بک جاتے تھے۔ ان شکاریوں کی دیکھا دیکھی میں نے بھی پھندے لگا کر مور اور مرغ پکڑنے کا شغل اختیار کیا اور اس میں بڑی کامیابی حاصل کی۔ اگرچہ یہ پرندے زیادہ تر ہمارے پیٹوں ہی میں اترتے رہے۔ یادرہے کہ اس وقت میری عمر تیرہ چودہ برس کی تھی۔
ایک روز کا ذکر ہے ،ہم دن بھر مرغ اور مور پکڑنے کے بعد مکان کے احاطے میں چار پائیوں پر لیٹے آرام کررہے تھے۔ رات کے نو بجے ہوں گے کہ ندی کی طرف سے ایک بارہ سنگھے اور وحشی کتوں کے چنگھاڑنے کی مشترکہ آوازیں آئیں۔ندی ہماری قیام گاہ سے کوئی سوگز کے فاصلے پر ہو گی۔ جنگل کے تمام جانور اس پر آن کر پیاس بجھایا کرتے تھے۔جب دیر تک بارہ سنگھے اور کتوں کی چیخ و پکار ہمارے کانوں میں آتی رہی اوریہ سمجھ لیا گیا کہ ایسے غل غپاڑے میں آرام کی نیند سونا ممکن نہیں،تب میرے بڑے بھائی نے کہا:
’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جنگلی کتوں نے بارہ سنگھے کو گھیر لیا ہے اور وہ غریب اپنی جان بچانے کے لیے ندی میں کود گیا ہو گا، اب کتے ندی کے باہر بھونک رہے ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ بارہ سنگھا کب پانی سے باہر آتا ہے!بارہ سنگھے کو بہرحال ندی سے باہر نکلنا ہو گا اور جونہی وہ باہر آئے گا، جنگلی کتے اس کی تکا بوٹی کر ڈالیں گے۔‘‘
میرے لیے یہ بے حد دلچسپی کی بات تھی۔ میں نے امیر مرتضیٰ سے کہا:
’’کیایہ ممکن نہیں کہ ہم ان جنگلی کتوں کو وہاں سے بھگا دیں اور بارہ سنگھے کو خود پکڑ کر حلال کر ڈالیں ،اس کا گوشت تو بہت لذیذ ہوتا ہے۔‘‘
بڑے بھائی کو یہ تجویز پسند آئی۔اگرچہ رات زیادہ جا چکی تھی اور اس وقت ندی پر جانا مناسب نہ تھا، لیکن بارہ سنگھے کے لذیذ گوشت نے ہمیں بے چین کر دیا۔
(جای ہے)