درندوں کے شکاری کی سرگزشت…قسط نمبر 13

درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 13

نشانہ خطا ہونے پر مجھے بے حد صدمہ پہنچا۔ چیتا مسلسل گرج رہا تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ اس کی آواز مدھم اور دور ہوتی چلی گئی۔میں نے اس جلد بازی پر اپنی قسمت کو کوسا اور دوبارہ پائپ بھرنے لگا۔ اب میں سورج نکلنے سے پہلے درخت سے نیچے ا ترنہ سکتا تھا۔ چیتے کا دوبارہ ادھررخ کرنا محال تھا۔

ایک ہفتہ گزر گیا ۔اس دوران میں چیتے نے بیس مربع میل کے علاقے میں خوف وہراس کی جو فضا تیار کی اسے بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں….ایک مرتبہ زخمی ہونے اور دوسری مرتبہ بچ کر نکل جانے کے باعث وہ نہایت خونخوار اور ہوشیار ہو چکا تھا۔ ایک ہفتے کے اندر اندر اس نے تین افراد کو ہڑپ کیا۔ اس کی نقل و حرکت کے بارے میں صحیح صحیح اندازہ کرنا ممکن نہ رہا۔ایک واردات اگر وہ مشرق میں سات میل دور کرتا تو اگلے روز مغرب میں اتنے ہی فاصلے پر دوسری واردات ہوتی۔میں دن کا چین اور رات کی نیند حرام کیے ہوئے تازی کتوں کی طرح اس کے تعاقب میں تھا، لیکن ہر بار و جل دے جاتا۔ بیرا کے زخم رفتہ رفتہ مندمل ہوتے جارہے تھے۔ اس کی بیوی، جو نہایت سیدھی سادی اور شریف عورت تھی، اپنے خاوند کی تیمارداری میں لگی ہوئی تھی۔

دسویں روز صبح سویرے، میں جنگل کے سرے پر بیٹھا بندروں کی اٹھکیلیوں سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ چیتے کو گھیرنے کی تدبیریں سوچ رہاتھا کہ بیل گاڑی کے پہیوں کی آواز آئی۔ مجھے خیال ہوا کہ آنے والا اجنبی ہے یا اسے کوئی حادثہ پیش آیا ہے۔اتنے میں گاڑی قریب آگئی۔ میں نے دیکھا کہ اس میں جتا ہوا بیل بے تحاشا دوڑ رہا ہے اور گاڑی میں کسی آدمی کا دھڑ خون میں لت پت اس طرح لٹکا ہوا ہے کہ اس کے ہاتھوں کی انگلیاں زمین کو چھو رہی ہیں۔میں نے لپک کر گاڑی روکی۔ گاڑی بان کو نیچے اتارا، تو اس کا سانس ابھی چل رہا تھا۔ اتنے میں گاﺅں کے لوگ جمع ہو گئے۔ ہم نے اس کے منہ میں پانی ٹپکانے کی کوشش کی ،لیکن پانی حلق میں نہ جا سکا اور باچھوں سے بہہ گیا۔

میں نے دیکھا، اس کا سینہ اور پیٹ زخمی ہے اور خون بڑی مقدار میں بہہ چکا ہے۔مرنے سے چند منٹ پہلے اس نے آنکھیں کھولیں اور صرف دو لفظ کہے:

”بدری رام ….چیتا….“پھر اس کی گردن ڈھلک گئی۔

گاڑی بان کی حالت سے اندازہ ہوا کہ یہ حادثہ پیش آئے زیادہ دیر نہیں گزری۔ شاید لالہ بدری رام ادھر آرہے تھے کہ چیتے نے راہ میں حملہ کر دیا اور گاڑی بان کو زخم کر کے لالہ بدری رام کو اٹھا کر لے گیا….میں نے فوراً گاﺅں کے لوگوں کو جمع کیا اور پچاس ساٹھ آدمیوں کا گروہ تیار کرکے جنگل میں گھس گیا۔ بیل گاڑی کے نشانات دیکھتے دیکھتے آخر ہم پگ ڈنڈی کے اس حصے پر جا نکلے جہاں چیتے نے حملہ کیا اور بیل پگ ڈنڈی چھوڑ کر جنگل میں جا گھسے تھے۔یہاں خون کے دھبے بھی دکھائی دیئے۔میں سوچ رہاتھا کہ اتنی دیر میں چیتا بدری رام کی لاش گھسیٹ کر دور لے گیا ہو گا، لیکن چند قدم جانے کے بعد اندازہ ہوا کہ چیتے نے زیادہ دور جانے کی زحمت گوارا نہیں کی اور بدری رام کو ہلاک کرکے وہیں کھانا شروع کر دیا تھا، کیونکہ لاش ایک جھاڑی کے باہر اس حالت میں پڑی تھی کہ اس کی ایک ٹانگ غائب تھی اور چیتے نے پشت پر سے بھی تھوڑا سا گوشت کھایا تھا۔چنانچہ میں نے لاش کو وہیں پڑا رہنے دیا اور لوگوں سے کہا کہ وہ واپس گاﺅں چلے جائیں۔

چیتا لاش یہیں چھوڑ گیا ہے اور وہ کسی بھی وقت دوبارہ ادھر آئے گا۔ میں اس کا مقابلہ کرنے کے لیے موجود ہوں۔گاﺅں والے واپس جاہی رہے تھے کہ میرے دیکھتے دیکھتے چیتا ایک طرف سے برآمد ہوا۔ اتنے آدمیوں کو دیکھ کر وہ رکا۔ لیکن بے پروائی سے چلتا ہوا لاش کے قریب پہنچا۔ اسے منہ میں دبایا اور گھسیٹ کر جھاڑیوں کے اندر جانے لگا۔ لوگ اس چیتے کو دیکھ کر اس قدر ہراساں اور بدحواس ہوئے کہ چیختے چلاتے بھاگ اٹھے۔میں خود چیتے کی دیدہ دلیری اور بے خوفی پر حیران تھا۔اگر ایک لمحہ اور غفل ہوتا، تو میری نظروں کے عین سامنے سے چیتا فاتحانہ انداز میں لاش لے جان میں کامیاب ہو جاتا۔میں نے یکایک جیسے خواب غفلت سے چونک کر دو نالی بندوق سیدھی کی اور بیک وقت دو فائر کیے۔ دونوں گولیاں چیتے کا بھیجا پھاڑتی ہوئی نکل گئیں اور اس طرح تلوادی کا وہ آدم خور چیتا اپنے انجام کو پہنچا جس کا قد کھوپڑی سے لے کر دم تک 9فٹ ساڑھے آٹھ انچ تھا اور میری شکاری زندگی میں یہ پہلا اتفاق تھا کہ اتنا زبردست چیتا میرے ہاتھوں ماراگیا۔

٭٭٭٭

اگر آپ کو بڑے شکار سے دلچسپی ہے،لیکن آپ نے ابھی تک مرکزی ہندوستان، یعنی مدھیہ پردیش کے جنگل نہیں دیکھے تو یقین فرمائیے کہ آپ ان تمام نعمتوں اور لطائف سے محروم ہیں جو ان خطرناک جنگلوں میں چپے چپے پر کسی بھی شکاری کو میسر آسکتے ہیں۔مجھے دیکھیے تیرہ برس کی عمر میں ان جنگلوں کا ایسا اسیر ہوا کہ تقسیم ملک کے بعد بھی پاکستان کی شہریت اختیار نہیں کر سکا، حالانکہ میرے تمام قریبی عزیز رشتے دار سب پاکستان میں ہیں۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنگل اگر ایک مرتبہ کسی کو ا سیر کرلے، تو پھر وہ کہیں اور نہیں جا سکتا۔ میں اتنا بڑا شکاری تو نہیں ہوں جتنے بڑے شکاری آنجہانی جم کاربٹ یا کینتھ اینڈرسن جیسے لوگ تھے، تاہم یہ بات یقینی ہے کہ ان دونوں عظیم شکاریوں کی زندگی کا بڑا حصہ ہندوستان کے انہی جنگلوں میں بسر ہوا اور یہاں آج بھی لوگ انہیں یاد کرکے ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں،اس کی وجہ محض یہ ہے کہ ان انگریز شکاریوں نے بے شمار آدم خوروں سے معصوم اور نہتے دیہاتیوں کو نجات دلائی تھی….یوں کہنے کو میں نے بھی اپنی بھرپور شکاری زندگی میں کوئی ڈیڑھ سو چیتے ہلاک کیے ہیں۔ان میں سے اکثر مردم خور تھے اور بعض تو ایسے بھی نکلے جو سینکڑوں انسانی جانوں کو اپنا لقمہ بنا چکے تھے اور کسی طرح قابو میں نہ آتے تھے۔

میرے شکاری بننے کی داستان بھی عجیت ہے۔بچپن ہی سے اگرچہ مجھے ویرانوں اور غیر آباد جگہوں پر پھرنے کاشوق تھا، تاہم یہ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ میں ایک دن پیشہ ور شکاری بنوں گا۔ میرے گھرانے میں بھی سوائے بڑے بھائی امیر مرتضیٰ کے اور کسی کو شکار وغیرہ سے لگاﺅ نہ تھا کہ خیال ہوتا شاید مجھ میں اپنے آباﺅ اجداد یا خاندان کے دوسرے افراد کا کچھ اثر ا ٓیا ہو گا۔ یہ بھی درست ہے کہ پڑھنے لکھنے سے کچھ دلچسپی نہ تھی اور موقع ملتے ہی میں اسکول سے نکل کر ادھرادھر گھومنے چلا جاتا۔

پنجاب کے شہر گجرات میں1903ءمیں میری پیدائش ہوئی اور پانچ سال کی عمر میں مجھے مشن سکول گجرات میں داخل کرادیا گیا۔لیکن واقعہ یہ ہے کہ اپنی جماعت میں میرا جی نہ لگتا اور جونہی مجھے کوئی بہانہ ملتا اسکول سے نکل کر ا ردگرد کے تالابوں یا ندی نالوں پر پہنچ جاتا۔ان دنوں مجھے مچھلی کے شکار سے خاص دلچسپی تھی اور میں نے چھری کانٹے وغیرہ کا خود ہی انتظام کر لیا تھا۔مچھلیاں پکڑنے سے فرصت پاتا، تو اونچے دشوار درختوں پر چڑھنے کی مشق شروع کر دیتا۔ درختوں پر چڑھ کر پرندوں کو پکڑنا یا ان کے انڈے بچے چرا لینا میرا محبوب مشغلہ تھا۔ سارا سارا دن ایسی ہی جگہوں پر بھوکا پیاسا مارا مارا پھرتا، لیکن شوق میں کمی نہ آئی۔ آہستہ آہستہ میں نے غلیلیں اور تیر کمان بھی بنا لیے۔ان ہتھیاروں سے پرندوں کو شکار کرنا بہت آسان ہو گیا۔ غرض مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ شکار کا جنون میرے رگ وپے میں خون کی طرح گردش کرنے لگا۔(جاری ہے)

Exit mobile version