تحریر: آوانی …جرمن…ذوالفقار علی بھٹو سے میاں نواز شریف تک سیاسی لحاظ سے ذوالفقار علی بھٹو بلاشبہ قد آور لیڈر تھے مگر اب میاں نواز شریف بھی سیاسی حوالے سے کوتاہ قد نہیں رہے. ذوالفقار علی بھٹو کی ذات سے میاں نواز شریف کا تقابل شاید مناسب نہ ہو مگر دونوں کے ساتھ پیش آمدہ حالات کا موازنہ نامناسب بھی نہیں. انیس سو اٹھاون میں سیاسی بصیرت کے حوالے سے ذوالفقار علی بھٹو اپنے دور کے میاں نواز شریف تھے اور دوہزار اٹھارہ میں میاں نواز شریف اپنے عہد کی عوامی مقبولیت کے لحاظ سے ذوالفقار علی بھٹو ہی ہیں. ذوالفقار علی بھٹو کسی زمانے میں جنرل ایوب خان کی تشکیل کردہ "مسلم لیگ کنونشن” کے جنرل سیکرٹری رہے، میاں نواز شریف بھی کسی دور میں جنرل ضیاء الحق کی حمایت یافتہ "مسلم لیگ فدا” کے جنرل سیکرٹری رہے. ذوالفقار علی بھٹو کو عدالت نے موت کی سزا دی تھی، میاں نواز شریف کو بھی عدالت نے قید کی سزا دی ہے. ذوالفقار علی بھٹو کا "سیاسی تیر” آج تک عدالت کے سینے میں پیوست ہے، کل کو نواز شریف کے "سیاسی شیر” کا پنجہ بھی عدالت کی شہہ رگ میں پیوست ہوگا. ذوالفقار علی بھٹو نے ریاست بننے کے بیس سال بعد عسکری قیادت کو چیلنج کیا، اگرچہ یہ چیلنج ان کے لئے جان لیوا ثابت ہوا، میاں نواز شریف نے بھی ریاست کے ایٹمی قوت بننے کے بیس سال بعد عسکری قیادت سے پنگا لیا ہے، اگرچہ یہ پنگا ان کو بھی مہنگا پڑ سکتا ہے. ذوالفقار علی بھٹو کی اہلیہ نصرت بھٹو نے اپنے شوہر کی گرفتاری پر جمہوریت کی خاطر ملک میں ہمہ گیر سیاسی تحریک چلائی تھی، میاں نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز نے بھی خاوند کی اسیری پر سیاسی میدان میں بحالی جمہوریت کے لئے ملگ گیر عوامی تحریک چلائی ہے. ذوالفقار علی بھٹو کا داماد آصف علی زرداری اور پوتا بلاول زرداری تمام تر کمزوریوں کے باوجود موجودہ سیاست کے مرکزی کردار مانے جاتے ہیں. میاں محمد نواز شریف کے داماد کیپٹن محمد صفدر اعوان اور نواسے جنید صفدر اعوان بھی تمام تر خامیوں کے باجود مستقبل میں سیاست کے کلیدی کردار مانے جائیں گے. ذوالفقار علی بھٹو کے بیٹے شاہنواز بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو دونوں کو سیاست کا شوق تھا مگر باپ کی جگہ قیادت ان کی دختر بینظیر بھٹو نے سنبھالی، میاں نواز شریف کے فرزند حسن نواز اور حُسین نواز کو بھی سیاست کا شوق ہوگا مگر قیادت ان کی بیٹی مریم نواز سنھبالنے جا رہی ہے. تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے. بھٹو اور نواز دونوں نے آمریت کی کوکھ سے جنم لیا اور عسکریت کی حمایت سے دونوں سیاست کے افق پر نمودار ہوئے مگر حالات کے جبر اور عوام کی حمایت نے مذاق مذاق میں دونوں کو اپنے دور کا جمہوری لیڈر بنا ڈالا.
اس میں لکھاری کا نقطہ نظر ہر روزنامہ سچ اس کا زمہ دار نہیں ہے