انقرہ(سچ نیوز) امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے شام سے اپنی فوج نکالے جانے کے چند گھنٹوں بعد ہی ترکی میں شام پر حملہ کر دیا۔ میل آن لائن کے مطابق گزشتہ روز ترکی نے شام پر پہلا ہلہ بولا اور کرد جنگجوﺅں کے سپلائی روٹ پر بمباری کی۔ ترکی کے اس حملے کا مقصد شام اور ترکی کے بارڈر پر ایک ’پیس کوریڈور‘ قائم کرنا ہے تاکہ شام کی حدود سے کرد جنگجو ترکی میں جو حملے کرتے ہیں انہیں روکا جا سکے۔ترکی کے سکیورٹی حکام نے شام پرحملے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ”ترک ایئرفورس نے سیمالکا بارڈر کراسنگ کے قریبی علاقوں میں بمباری کی ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جسے کرد جنگجو سپلائی روٹ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہ علاقہ کرد جنگجوﺅں کے زیرقبضہ شامی علاقے کو ایران اور شام سے منسلک کرتا ہے۔ اس حملے کا ایک بنیادی مقصد کرد جنگجوﺅں کی عراق اور شام کے درمیان سپلائی لائن کاٹنا تھا، جو کہ کاٹ دی گئی ہے۔ “دوسری طرف صدر ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹر اکاﺅنٹ کے ذریعے بتایا ہے کہ انہوں نے ترک صدر رجب طیب اردگان کو آئندہ ماہ ملاقات کی دعوت دی ہے۔ یہ ملاقات نومبر میں وائٹ ہاﺅس میں ہو گی۔واضح رہے کہ کرد جنگجوﺅں پر مبنی سیرین ڈیموکریٹک فورسز شام کی جنگ میں امریکہ کی قریب ترین اتحادی رہی ہیں اور امریکی فوج کے ساتھ مل کر شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف لڑتی رہی ہیں۔تاہم ترکی ان کردجنگجوﺅں کو دہشت گرد قرار دیتا ہے جو ترک سرزمین پر متعدد دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث رہ چکے ہیں۔ اب صدر ٹرمپ نے اپنی افواج نکال کر سیرین ڈیموکریٹک فورسز کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔ اس معاملے پر گزشتہ روز سیرین ڈیموکریٹک فورسز کی طرف سے ایک بیان سامنے آ یا جس میں ان کا کہنا تھا کہ”صدر ٹرمپ نے ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔“