نئی دہلی (سچ نیوز)ہندوستانی سپریم کورٹ نے طویل عرصہ سے زیر سماعت بابری مسجد کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے تاہم دوسری طرف بھارتی میڈیا نےدعویٰٰ کیا ہے کہ اجودھیا تنازع کی سماعت کے آخری دن دونوں فریقوں کے درمیان خفیہ سمجھوتہ ہونے کی اطلاع ہے اور خفیہ معاہدے کی دستاویزات بھی سپریم کورٹ میں پیش کر دی گئی ہیں جبکہ بابری مسجد پر سمجھوتے کی خبروں کے بعد دہلی کی جامع شاہی مسجد کے امام مولانا سید احمد بخاری نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے مسلمانوں کے دیرینہ موقف میں اچانک تبدیلی کو’کھلی سودے بازی‘ قرار دیا ہے اور سوال کیا ہے کہ اس حقیقت یا مصلحت تک آنے میں اتنی مدت کیوں لگی؟بابری مسجد کی سودے بازی کرنے والوں کو اس کا جواب دینا ہی ہوگا۔بھارتی نجی ٹی وی کے مطابق ہندوستانی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گوگئی کی سربراہی میں پانچ رکنی بن نے تاریخی بابری مسجد کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے ،یاد رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ میں تاریخی بابری مسجد کیس کی سماعت کا آج 40واں دن تھا اور سب ہی فیصلے کا بڑی شدت کے ساتھ انتظار کر رہے تھے۔ان 40 دنوں کے دوران مسلمان اور ہندو تنظیوں کے وکلا سمیت سبھی فریقوں نے اپنے دلائل پیش کئے جبکہ عدالت دونوں جانب سے دلائل کے دوران تلخی اور کشیدگی بھی دیکھنے میں آئی۔دوران سماعت آل انڈیا ہندو مہاسبھا کے وکیل وکاس کمار سنگھ نے کنال کشور کی کتاب ’’اجودھیا ر ی وزیٹیڈ ‘‘ پیش کی جس پر مسلم تنظیموں کے وکیل راجیو دھون نے سخت اعتراض کرتے ہوئے عدالت سے درخواست کی کہ اس کتاب کو بطور ثبوت ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ یہ کتاب حال ہی میں لکھی گئی ہے جس پر وکاس کمار سنگھ نے ایک نقشہ عدالت میں پیش کرتےہوئےمسلم وکیل راجیو دھون کو پیش کیا جس پر راجیو دھون طیش میں آ گئے اوربھری عدالت میں وہ نقشہ پھاڑ دیاجس پرچیف جسٹس رنجن گوگئی نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کچھ اور بھی پھاڑ دیجئے جس پر راجیو دھون ایڈووکیٹ نے مزید دستاویزات بھی پھاڑ دیں ۔دوسری طرف بھارتی نجی ٹی وی نے دعویٰ کیا ہے کہ انڈین سپریم کورٹ کی مقرر کردہ ثالثی پینل نے عدالت میں ایک رپورٹ جمع کروائی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہندو اور مسلم فریق میں اجودھیا تنازع کے سلسلے میں معاہدہ ہوگیا ہے،معاہدے کی شرائط کے مطابق متنازعہ اراضی پر رام مندر کی تعمیر ہو گی لیکن ساتھ ہی مسجد کے لئے جگہ بھی دی جائے گی ۔بھارتی ٹی وی چینلز پر بابری مسجد کیس میں معاہدے کی خبریں نشر ہونے پر دہلی کی جامع مسجد کے امام مولانا سید احمد بخاری نےبابری مسجد تنازعہ کے تعلق سے مسلمانوں کے دیرینہ موقف میں اچانک تبدیلی کو’کھلی سودے بازی‘ قرار دیتے ہوئے سوال کیا کہ اس حقیقت یا مصلحت تک آنے میں اتنی مدت کیوں لگی؟ ایسا اچانک کیاہواکہ بابری مسجد کے حوالے سے 300 سوسال سے زائد پرانے موقف سے انحراف کرناپڑا؟انحراف ہی نہیں بلکہ دستبرداری کیلئے حلف نامے تک بات پہنچ گئی،مقدمے کی کارروائی اب جب کہ اپنے منطقی انجام سے قریب ترہوچکی تھی اور آج فریقین کی جانب سے دلائل پر بحث مکمل بھی ہونے جارہی تھی حتی کہ چیف جسٹس آف انڈیا کی جانب سے ایساسننے میں بھی آیاہے کہ انہیں فیصلہ تحریرکرنے کیلئے تقریبا ایک ماہ کی مدت درکار ہے اتنی واضح صورت حال کی موجودگی میں جس میں پوری ملت اور اسکے عمائدین کی عدالت کے فیصلے کے حوالے سے غیر مشروط آمادگی کا اظہار بھی شامل ہے،اس طرح اچانک فیصلہ کیوں کرنا پڑا؟۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگربابری مسجد سے دستبرداری کایہ فیصلہ قرآن وحدیث،فقہ اسلامی اور اجماع ملت کے پس منظر میں لیاگیاہے تو آج اچانک یہ ایک ”حقیقت“ بنکرکیوں ابھراہے؟ اس حقیقت یا مصلحت کو یہاں تک آنے میں اتنی مدت کیوں لگی؟۔انہوں نے کہا کہ جب مسجد کی دینی حیثیت پر کوئی سوال نہیں ہے تو بابری مسجد سے دست برداری کے لئے اس پیش بندی میں 23 سال کا عرصہ کیوں لگا؟ ہزاروں معصوم جانوں کو لقمۂ اجل کیوں بنایا گیا؟ لاکھوں خاندانوں کی اقتصادیات اور عزت نفس کو نیلام کیوں ہونے دیا گیا؟ فرقہ پرستی کو بے لگام ہونے کے لئے غذاء و زمین کیوں فراہم کی گئی؟فسادات کا لامتناہی سلسلہ، تشدد، فرقہ پرستی کو کھلی چھوٹ، معصوموں کی آبروریزی، ملک میں ہیجانی کیفیات اور شکوک وشبہات کا ماحول کیوں بننے دیا گیا؟بابری مسجد کی ”سودے بازی“کرنے والوں کو اس کا جواب دینا ہی ہوگا۔