واشنگٹن(سچ نیوز) ایران کی طرف سے امریکہ ڈرون طیارہ گرانے اور اس کے ٹکڑے دنیا کو دکھانے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی اپنے عروج کو پہنچ گئی ہے اور تیسری عالمی جنگ کا خطرہ دنیا کے سر پر منڈلانے لگا ہے۔ میل آن لائن کے مطابق ایران کی اس کارروائی کے جواب میں امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے ایران پر حملوں کا حکم بھی دے دیا تھا لیکن آخری وقت میں جب امریکی جنگی جہاز اور بحری بیڑے حملے کے لیے پوزیشنز لے چکے تھے، صدر ٹرمپ نے یہ حکم واپس لے لیا اور کچھ وقت کے لیے جنگ کا خطرہ دنیا کے سر سے ٹل گیا۔
رپورٹ کے مطابق صدر ٹرمپ نے اپنا ایران پر سٹرائیکس کا فیصلہ ’سچوئشن روم بریفنگ‘ کے بعد تبدیل کیا جہاں اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ ایران جوابی کاررائی کرے گا اور جنگ چھڑ جائے گی۔ اس حکم کی واپسی کے بعد امریکی سینیٹر مک کونیل کا کہنا تھا کہ ”امریکہ ڈرون طیارہ گرائے جانے کا نپا تُلا جواب دے گا۔“ امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو، قومی سلامی کے مشیر جان آر بولٹن اور سی آئی اے ڈائریکٹر جینا ہیسپل سمیت کئی اعلیٰ حکام ایران پر سٹرائیکس کے حامی ہیں تاہم پینٹاگون حکام اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ایران پر سٹرائیکس کی گئیں تو جنگ چھڑ جانے کا قوی امکان ہو گا۔ واضح رہے کہ امریکہ کا کہنا ہے کہ اس کا ڈرون طیارہ بین الاقوامی سمندری حدود میں تھا لیکن ایرانی وزیرخارجہ محمد جاوید ظریف کا کہنا ہے کہ ڈرون کے ٹکڑے ایران کی سمندری حدود میں آ کر گرے۔ دوسری طرف ایرانی حکام کی طرف سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات اور مذاکرات کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق خطے میں جنگ کا خطرہ اس قدر سنگین ہو چکا ہے کہ یونائیٹڈ ایئرلائنز، قنطاس، ایئر فرانس اور کے ایل ایم سمیت کئی فضائی کمپنیوں نے خلیجی خطے میں اپنے روٹ تبدیل کر لیے ہیں۔