تہران(سچ نیوز)پاکستان کے ہمسائیہ ملک ایران پر جنگ کے سائے منڈلانے لگے۔امریکا کی جانب سے واضح دھمکی کے بعد ایران کا ردعمل بھی آگیا ہے۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جاری کئے گئے پیغام میں ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کا کہنا ہے کہ’ اگر اسلامی جمہوریہ نے چیلنج کرنے اور لڑنے کا فیصلہ کر لیا تو یہ غیر مبہم فیصلہ ہوگا۔ہم جنگیں نہیں چاہتے لیکن ہم پوری شدت سے ایرانی مفادات، وقار اور شان و شوکت کا دفاع کریں گے۔اگرکسی نے ہمیں دھمکی دی ہم بنا کسی ہچکچاہٹ کے مقابلہ کریں گے اور ان پر حملہ کریں گے۔‘
آیت اللہ علی خامنہ ای کا بیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس ٹویٹ کے بعد سامنے آیا ہے جس میں ٹرمپ نے کہاکہ ’بغداد میں امریکی سفارتخانہ محفوظ تھا، اور ہے۔ہمارے کئی بہترین جنگجو بھاری اور جدیداسلحے کے ساتھ بروقت وہاں پہنچے،ہم عراقی صدر اور وزیراعظم کے بروقت اقدامات پر ان کے شکرگزار ہیں۔
امریکی صدر نے اپنے ٹویٹ میں مزید کہاکہ”ہمارے کسی بھی جانی اور مالی نقصان کی تمام تر ذمہ داری ایران پر عائد ہوگی۔اس سب کا انہیں بھاری خمیازہ بھگتنا ہوگا۔یہ کوئی تنبیہ نہیں بلکہ یہ ایک خطرہ ہے۔نیا سال مبارک ہو۔“
واضح رہے کہ مشرق وسطیٰ میں اٹھنے والی کشیدگی کی یہ تازہ لہر اس وقت شروع ہوئی جب امریکی طیاروں نے بمباری کرکے عراق میں ایک ملیشیا کے ٹھکانوں پر حملے کرکے درجن بھر جنگجووں کو جاں بحق کردیا جس پر بغداد میں مظاہرے پھوٹ پڑے،ہزاروں افراد نے امریکی سفارتخانے پر حملہ کرکے گیٹ توڑ دیا اور جلاو گھیراو کرلیا۔
امریکا نے ان مظاہروں کی تمام تر ذمہ داری ایران پر ڈال دی تھی جس کے بعد امریکا نے مشرق وسطیٰ میں موجود اپنے ہزاروں فوجیوں کو کویت پہنچنے اور جنگ کے لیے الرٹ ہونے کا نوٹس جاری کر دیا ہے جس سے بظاہر لگ رہا ہے کہ امریکہ نئے سال کے آغاز پر ہی ایران پر حملہ کرنے جا رہا ہے۔برطانوی اخبار میل آن لائن کے مطابق گزشتہ روز عراق کے داالحکومت بغداد میں ایک جنگجو تنظیم نے امریکی سفارت خانے پر حملہ کیا تھا جس کی ذمہ داری امریکہ کی طرف سے ایران پر عائد کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ایران اس تنظیم کی پشت پناہی کر رہا ہے اور اسی کی ایماءپر تنظیم نے یہ حملہ کیا۔
امریکی صدر کی جانب سے دھمکی آمیز ٹویٹس کے کچھ ہی گھنٹوں بعد امریکی فوج کی 82ویں ایئر بارن ڈویڑن کی الرٹ بریگیڈ کو تیزی سے کویت پہنچانا شروع کر دیا گیاہے۔ اخبار کے مطابق اس وقت 70پیراٹروپرز کویت پہنچنے کے لیے راستے میں ہیں اور 4ہزار کی نفری پر مشتمل اس بریگیڈ کو بھی الرٹ کر دیا گیا ہے۔العربیہ اردو کے مطابق امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر کا کہنا ہے کہ پینٹاگان عراق میں حالیہ واقعات کے جواب میں 750 کے قریب اضافی فوجیوں کو "فوری” طور پر مشرق وسطی بھیجے گا۔ ایسپرنے یہ بات بدھ کے روز جاری ایک بیان میں بتائی۔
ایسپرکے مطابق”یہ ایک احتیاطی تدبیر کا اقدام ہے ، جو امریکی افراد اور تنصیبات کے خلاف بڑھتے ہوئے خطرے کا مناسب جواب ہے۔اسی طرح کا خطرہ جو ہم نے منگل کے روز بغداد میں دیکھا”۔دوسری جانب گزشتہ روز بغدادمیں امریکی سفارتخانے پر حملے کے بعد ایران کی جانب سے جاری کئے گئے سرکاری بیان میں امریکی الزامات کو مسترد کردیاگیاہے۔
العربیہ کے مطابق بغداد میں امریکی سفارت خانے پر عراقی ملیشیا الحشد الشعبی کے دھاوے کے حوالے سے اپنے پہلے تبصرے میں ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موسوی نے امریکا کو خبردار کیا ہے کہ عراق کے واقعات کے حوالے سے "کوئی بھی منسوب رد عمل” سامنے نہیں آنا چاہیے۔ایرانی حکومت کے ترجمان نے امریکی فوجیوں کو نشانہ بنانے کی کارروائی میں تہران کے کسی بھی کردار کی سختی سے تردید کی۔یہ موقف ایران نواز عراقی ملیشیا الحشد الشعبی کے ٹھکانوں پر امریکی بمباری پر تبصرہ کرتے ہوئے سامنے آیا۔
ایرانی خبر رساں ایجنسی "اِرنا” کے مطابق موسوی نے امریکا کے اس موقف کو مسترد کر دیا جس میں الزام عائد کیا گیا کہ امریکی سفارت خانے پر حملے میں ایران کا ہاتھ ہے۔ موسوی کے نزدیک امریکا نے عراقی عوام کو ضرر پہنچایا ہے اور عراقی کسی طور بھی الحشد الشعبی کے ارکان کی ہلاکت پر خاموش نہیں رہیں گے۔ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے امریکا کو "کسی بھی غیر ذمے دارانہ رد عمل اور حساب کتاب میں غلطی” سے خبردار کیا۔ موسوی نے وائٹ ہاو¿س پر زور دیا کہ وہ خطے میں اپنی تباہ کن پالیسی پر نظر ثانی کرے۔