امی ابو کیا میں زنا کرلوں ؟

امی ابو کیا میں زنا کرلوں ؟

تحریر:  عامر سلیمی

امی ابو کیا میں زنا کرلوں ؟
منہ کالا کرلوں ؟
نہیں تو پھر تم ہی بتاؤ میں کیا کروں ؟
اپنے والد کو کتنی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ ابو میری شادی کروادیں ، تو کہتے ھیں تجھے کیا جلدی ہے ؟
یار ابو کو خود سمجھنا چاہیۓ کہ ایک نوجوان آدمی کو کیا جلدی ہوتی ھے ، میں گناه سے بچنا چاہتا ہوں یار ، میں بچنا چاہتا ھوں ……………….اتنا کہہ کر وه نوجوان رکا ، تو میں نے اسکی آنکھوں میں نمی کی ایک ہلکی سی لہر تیرتی دیکھی__!
کل سے سوچ رہا ہوں کہ یہ صرف ایک نوجوان کا مسئلہ نہیں ، اندازه کیجیۓ ! ایک ایسے ماحول میں جو جنسی ترغیبات سے دہک رہا ہو ، بھڑک کر شعلے ماررہا ہو اور جن شعلوں کی لپٹ نوجوان بچوں کے چہروں تک آرھی ھو ، کیا والدین کو اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں کرنا چاہیۓ__؟
ذیاده تر والدین اپنی ناک اونچی رکھنے کے چکر میں بچوں کی شادی میں تاخیر پہ تاخیر کرتے چلے جاتے ھیں کہ جی اتنے اتنے زیور نہیں بنائیں گے اور فلاں شادی ھال لاکھوں میں بک نھیں کرینگے تو لوگ کیا کہیں گے , لیکن وه یہ بھول جاتے ھیں کہ اگر خدا نخواستہ بچے زنا میں مبتلا ھوگۓ تو الله سبحان و تعالی کیا کہیں گے___؟
دنیا کے دستور پورے کرکے بمشکل 30 , 32 سال کی عمر میں تب شادی کردی جاتی ہے , جب بیٹا جوانی کی رعنائیاں کھو چکا ہوتا ھے , اور اسے بیوی سے رغبت باقی نہیں رہی ہوتی , یوں ہنستا بستا گھر جھنم بن جاتا ہے ,
اندازه کیجیۓ ! 15 سال کی عمر میں جوان ہونے کے بعد 30 سال تک پہنچنے کے اس زمانے میں نوجوان پر کیا کیا قیامتیں نہ گزرتی ہونگی , اس کے پاس بس دو ہی آپشن ہوتے ہیں :
یاتو وه گناه سے اپنے آپ کو بچا کر روز اپنے ہی خواہشات کا قتل کرکے ہر لمحہ جیتا اور ہر لمحہ مرتا ہے ,
اور یا وه گناہوں کی اندھی وادی میں بھٹک کر ایسا گم ہوجاتا ہے کہ جب واپس آتا ہے تو اسکی گٹھڑی میں سواۓ حسرت و افسوس کے اور کچھ نہیں ہوتا__!
اور اس سب کی ذمہ داری ان والدین پر عائد ہوتی ہے جو اپنی ناک اونچی رکھنے کیلیۓ اپنے جوان بچوں کو پستیوں میں دھکیل دیتے ھیں ___!
خدارا ! لوگوں کی فکر چھوڑیۓ , اپنے بچوں کی فکر کیجیۓ__!

Exit mobile version