تہران (سچ نیوز) عراق میں امریکہ کے فوجی اڈوں پر ایران کے میزائل حملوں کے بعد ایران کے سرکاری ٹی وی پر دکھائی جانے والی خبروں میں تسنیم نیوز ایجنسی کے حوالے سے بتایا گیا کہ ان حملوں میں فاتح 313 اور قیام نامی میزائل استعمال کیے گئے۔ فاتح پانچ سو کلومیٹر جبکہ قیام آٹھ سو کلومیٹر تک مار کر سکتا ہے۔پاسداران انقلاب نے میزئلوں کی اقسام کا ذکر کیے بغیر صرف اتنا کہا تھا کہ ان حملوں میں ’زمین سے زمین پر مار کرنے والے درجنوں میزائل‘ استعمال کیے گئے۔اس سے قبل نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لیے بھی یہی میزائل استعمال ہوئے تھے۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کا کہنا ہے کہ ایران نے اپنے ہاں جو میزائل بنائے ہیں وہ پانچ سو سے دو ہزار کلومیٹر کے فاصلے تک مار کر سکتے ہیں۔پاسدارانِ انقلاب کے قریب سمجھے جانے والی تسنیم نیوز ایجنسی نے حملوں کے بعد اپنی ویب سائٹ پر لکھا ہے ’چونکہ امریکہ کے عین الاسد نامی فوجی اڈے کا فاصلہ ایران کے کرمانشاہ صوبے میں واقع اس مقام سے 322 کلومیٹر دور ہے جہاں ایران نے اپنے میزائل لگائے ہوئے ہیں، اس لیے یہ کہنا درست ہو گا کہ اس حملے میں فتح نامی میزائلوں کی کوئی قسم استعمال کی گئی ہے۔ فاتح نامی میزائل تین سو کلومیٹر سے لیکر پانچ سو کلومیٹر کے درمیان اپنے اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
ایرانی افواج کا دعویٰ ہے کہ ذوالفقار ان کا بہترین میزائل ہے کیونکہ یہ ٹھیک نشانے پر لگتا ہے اور اس میں دشمن کے ریڈار کو جام کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ذوالفقار ان الیکٹرانک لہروں کے خلاف بھی کارآمد رہتا ہے جو دشمن میزائل کا راستہ بدلنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ایران نے اپنے ذوالفقار نامی میزائلوں کو دو اقسام میں تقسیم کیا ہے، درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے اور ریڈار رینج میزائل۔ پاسدارانِ انقلاب کے مطابق اس میزائل کے ساتھ لگے ہوئے ڈیڑھ میٹر لمبے راکٹ میں ٹھوس ایندھن بھرا جا سکتا ہے اور یہ آواز کی نصف رفتار تک اڑ سکتا ہے۔یہ میزائل موبائل لانچر سے داغا جا سکتا ہے جس کی وجہ سے دشمن کو اس مقام کا تعین کرنا مشکل ہو سکتا ہے جہاں سے اسے چلایا گیا ہوتا ہے۔ذوالفقار میزائل پہلی مرتبہ اس وقت دکھائی دیا تھا جب بندر عباس میں ستمبر میں ایرانی افواج کی ایک پریڈ میں اس کی نمائش کی گئی تھی۔ایران نے 750 کلومیٹر تک مار کرنے والے اپنے قیام میزائلوں کو بھی دو اقسام میں تقسیم کر رکھا ہے، درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے اور ریڈار رینج کے میزائل۔
پاسدارنِ انقلاب کے مطابق اس کی لمبائی ساڑھے تین میٹر ہے اور یہ آواز کی رفتار سے پانچ گنا زیادہ رفتار سے اڑ سکتا ہے۔ اس میزائل کو بھی موبائل لانچر کی مدد سے داغا جا سکتا ہے جس کی وجہ سے دشمن کو اس کے مقام کا اندازہ لگانے میں مشکل ہو سکتی ہے۔قیام میزائل کی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ دشمن کے ریڈار کو دھوکہ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسے آبدوز سے بھی فائر کیا جا سکتا ہے۔اس میزائل کی نمائش پہلی مرتبہ اگست میں کی گئی تھی۔ایران کے میزائل حملوں کے بعد تسنیم نیوز ایجنسی کا کہنا تھا کہ امریکی افواج ایران سے فائر کیے جانے والے میزائلوں کو اس لیے پکڑ نہیں سکیں کیونکہ ان میں کلسٹر وار ہیڈ لگے ہوئے تھے جو اینٹی میزائل نظام کے کام میں خلل ڈالنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ایجنسی کے مطابق یہی وجہ ہے کہ ایرانی میزائل امریکی اڈوں میں دسیوں دھماکے کرنے میں کامیاب رہے۔
ایران کے سابق وزیر دفاع حسین دہقان نے سنہ 2013 میں کہا تھا کہ ایران ایسے میزائل بنانے میں کامیاب ہو گیا ہے جن میں کلسٹر وار ہیڈ لگے ہوئے ہیں۔کلسٹر وار ہیڈ کے اندر بہت سے وارہیڈ لگے ہوتے ہیں جس میں ہر ایک مخلتف سمت میں اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔