جنرل قاسم سلیمانی پاسداران انقلاب قدس فورس کے سربراہ کی شہادت کے بعد ایک بار پھر امریکہ اور ایران کے درمیان حالات انتہائی کشیدہ دونوں ممالک کا ایک دوسرے کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ جاری اس کشیدگی کے پیش نظر کچھ مبصرین نے تو تیسری عالمی جنگ قرار دنے لگے ہیں کیونکہ ایران نے بدلہ لینے کا عزم ظاہر کیا ہے لیکن سوال یہ ھے کہ یہ بدلہ کیسے لیا جائے گا ؟ کیا مخصوص اہداف کو نشانہ بنایا جائے گا، آ بنائے ہرمز سے گزرنے والے امریکی تیل برادر جہازوں کے خلاف کارروائی ھو گی یا براہ راست امریکی افواج پر حملے ھونگے ایسے اندازے لگائے جا رہے ہیں کچھ امریکی حلقے کہ رہے کہ آئندہ صدارتی انتخابات میں فائدہ اٹھانے کے لیے جنرل سلیمانی کو شہید کیا گیا جیسے ایبٹ آباد والے آپریشن سے اٹھایا گیا تھا کچھ احباب کا کہنا ھے کہ ایران خاموشی سے نہیں بیٹھے گا پر ہمیں یہ بھی پتہ ھے کہ ایران کے پاس کوئی ایسے ہتھیاروں کی بھرمار نئی اور اس نے اپنا ایٹمی پروگرام بھی محدود کر لیا ھے یاد رہے کہ جمعہ کی صبح بغداد ائیرپورٹ کے قریب امریکہ نے تین راکٹ داغے جسکے نتیجے میں اہم مہمانوں کو لانے والی گاڑیوں میں جنرل سلیمانی سمیت سات افراد ہلاک ہوئے جنرل سلیمانی کو انکی انگوٹھی کی مدد سے شناخت کیا گیا اور سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی نے جنرل کی موت کو داعش کو کمزور کرنے کا بدلہ کہا جواد ظریف نے اسکو عالمی دہشت گردی کہا قرین قیاس ھے کہ وہ سعودی عرب پر غصہ نکالنے کی کوشش کرے گا اگر ایسا کچھ ھوتا ھے تو فرقہ وارانہ لڑائی سے امریکہ کی خواہش پوری ھو گی اور اگر وہ اسرائیل پر حملہ کرتا ھے تو امریکہ کو ان تمام ممالک کو تباہ کرنے کا موقع ملے گا جن سے اسرائیل کو خطرات لاحق ہیں اب پوری دنیا کی نظریں اس ملک پر ٹکی ہوئی ہیں جسکی سرزمین پر انکا مہمان مارا گیا یعنی عراق کہ وہ کس کی طرفداری میں بولتا ھے کیونکہ امریکہ کے خلاف عراق میں نفرت عروج پر ھے اور ایران کے خلاف جانے کی وہ پوزیشن میں نہیں پر اگر غیر جانبدار ھونے کی بجائے ایران کو کارروائیوں میں سہولیات فراہم کیں اور اپنی سرزمین استعمال کرنے دی تو امریکہ کچھ بڑا پیمانے پر ایران کے خلاف کارروائی نئی کر سکتا بلکہ ایران بہتر طریقے سے جوابی کارروائی کی پوزیشن میں آ سکتا ھے علاوہ ازیں امریکی اتحادی کسی فوجی کارروائی پر رضامند نہ ہو اور ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی پاسداری کریں جسکا امکان نظر آتا ھے کہ امریکہ کا ایران پر حملہ آسان نہیں رہے گا اب اگر یہ کشیدگی کے سیاہ بادل جنگ کی طرف نکل جاتے ھیں تو روس اپنے اتحادیوں کو اسلحہ کی کمی نہیں آنے دے گا جس سے جنگ صرف دو ممالک کی نہیں رہے گی بلکہ جو اندیشہ ھے کی یہ تیسری عالمی جنگ نا ھو وہ حقیقت کا روپ دھار لے گی کیونکہ شام خانہ جنگی کا شکار ھے عراق اور لیبیا میں بھی انتشار ھے سعودی یمن آویزش بھی ختم نئی ھوئی ایران اور امریکہ اس خطے میں تنازعات کو بڑھاوا دینے کا موجب بنے گی جنرل سلیمانی عوام میں بے حد مقبول شخصیت تھے یہی وجہ ھے کہ بدلہ لینے کے ساتھ تین روزہ سوگ کا بھی اعلان کیا گیا اور بغداد میں عراقی وزیراعظم سمیت لاکھوں لوگوں کی شرکت اس بات کا ثبوت ھے کہ لوگ ان سے کتنا پیار کرتے ہیں اور ایرانی قیادت عوام کے اعتماد کو قائم رکھنے کے لیے کچھ تو کرے گی جسکا نتیجہ دونوں کا ٹکراؤ ھو سکتا ھے کیونکہ طاقت کے نشے میں چور امریکہ عالمی قوانین کو کم ہی خاطر میں لاتا ھے اگر لاتا تو عراق میں گھس کر یہ کارروائی عمل میں نا لاتا جنرل سلیمانی پر حوثی باغیوں کو منظم کرنے حزب اللہ کو مضبوط بنانے اور خطے میں امریکی مفادات کے خلاف تنظیموں سے روابط کا الزام لگاتے ھوئے امریکی قیادت یہ بھول رہی ھے کہ ایران میں افراتفری اسی ایما پر فروغ پا رہی ھے ،
جب بھی امریکہ کو ضرورت محسوس ھوئی اس نے پاکستان کو استعمال کیا اب بھی کارروائی کی صورت میں مدد طلب کر سکتا ھے لیکن پاکستان مقتدر شخصیات کو کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے ماضی کو پیش نظر رکھنا چاہیے امریکہ نے اتحادی کو اعتماد میں لئیے بنا ہی ایبٹ آباد آپریشن کیا بھارت کی دوستی کی خاطر پاکستان کی معاشی امداد بند کی اسی لاکھ کشمیریوں پر زلم و ستم دیکھ کر انکو قید میں دیکھ کر بھی دہلی کے خلاف ایک لفظ نا کہا مگر اب اچانک فوجی تربیتی امداد بحال کر دی ھے یہ ایک چال ھے اسکے سوا کچھ نہیں اس بات کو سمجھتے ھوئے دانشمندی سے کام لینا ھو گا بلکہ سعودی کو بھی محتاط رہنا چاہیے کیونکہ امریکہ کو کسی مسلم ملک یا فرقے سے پیار نہیں اور یاد رکھیں کہ اب اگر جنگ ھوئی تو گریٹر اسرائیل کے خواب کو تعبیر مل جائے گی۔۔۔