میانوالی(بیوروچیف)سینئر رہنما میاں محمد ابوبکر کا کہنا ہے کہ
الائیڈ ہیلتھ پروفیشنل کونسل نا ہونے کی وجہ سے ہزاروں طلبا و طالبات کا مستقبل خطرے میں ہے
کونسل کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہزاروں گریجوایٹس اور حتیٰ کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کیے ہوئے نوجوان بے روزگا ہیں اور عطائی کہلائے جا رہے ہیں الائیڈ ہیلتھ سائنسز کے پروگرام میں داخلہ لینے کے لیے اہلیت بھی ایم بی بی ایس کی طرح ہی ہے اور سولہ سترہ سالہ تعلیم کے بعد ہمیں اپنے متعلقہ شعبے میں بھی کام کرنے پر عطائی کہا جاتا ہے جو کہ نا انصافی ہے دنیا کے تقریباً ہر ملک میں الائیڈ ہیلتھ پوفیشنل کونسلز موجود ہیں جو اپنے ٹیکنالوجسٹس کو رجسٹرڈ کرتی ہیں لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں ایسی کوئی کونسل موجود نہ ہے اور اس کونسل کے بننے کی راہ میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں ایم بی بی ایس نرسنگ فارمیسی اور دیگر شعبہ جات کی کونسلز کی طرح الائیڈ ہیلتھ پروفیشنل کونسل بھی بنائی جائے ہر سال ہزاروں طلباوطا لبات ان ڈگری پروگرامز میں داخلہ لیتے ہیں اور کونسل نہ ہونے کی وجہ سے ان کا مستقبل خطرے میں ہے کرونا کی وباء میں بھی میڈیکل ٹیکنالوجسٹس فرنٹ لائین پر رہ کے اپنی زندگیاں داؤ پر لگا کر کرونا ٹیسٹ کر رہے ہیں کوئی وبا ہو یا روٹین میڈیکل ٹیکنالوجسٹ کے بغیر میڈیکل کا شعبہ نا ممکن ہے اور ان کے لیے کوئی کونسل نا ہونا سراسر نا انصافی ہے وزیراعظم کے شکایت پورٹل پر ہزاروں شکایات جا چکی ہیں اور طلبا و گریجوایٹ ٹیکنالوجسٹس نے ٹویٹر کا رُخ کیا اور85ہزار ٹویٹس کیے اور سترہ جون کی شام تک ٹاپ ٹرینڈ رہا ہماری حکومت سے گزارش ہے کہ
الائیڈ ہیلتھ پروفیشنل کونسل کا قیام عمل میں لایا جائے اور کوالیفائیڈ ٹیکنالوجسٹس کے لیے نوکریاں نکالی جائیں تا کہ شعبہ صحت احسن طریقے سے اپنی خدمات سر انجام دے سکے